تازہ ترینفن اور فنکار

جب بھارتی گلوکارہ لتا منگیشکر پاکستانی گلوکار کے عشق میں مبتلا ہوئی

برصغیر کی بلبل اور سروں کی دیوی لتا منگیشر کے گیت سنتے ہی پیار اور محبت کا دیرینہ احساس ابھر کر ترو تازہ ہوجاتا ہے، کامیاب محبت ہو یا ناکام عشق، ہر کسی کو الگ ہی دنیا میں لے جانے والی سروں کی ملکہ لتا منگیشکر خود بھی عشق میں ناکامی کا زہر لگ بھگ پوری زندگی پی پی کر جیتی رہیں۔

جی ہاں بلکل انہوں نے بھی کسی کو ٹوٹ کر چاہا تھا، کیا آپ کو پتہ ہے کہ لتا منگیشکر پاکستان کے ممتاز گلوکار کے پیار میں پاگل تھیں۔ ان کا نام ہے استاد سلامت علی خان، جہیں اپنے عہد کا تان سین مانا جاتا تھا۔ لتا منگیشکراستاد سلامت علی کی دیوانی تھیں۔

لتا منگیشکر اس حد تک ان سے پیار کرتی تھیں کہ انہوں نے سلامت خان کو شادی کی پیشکش بھی کی تھی اور دنوں نے شادی کا بھی فیصلہ کر لیا تھا۔ اس محبت کا آغاز 50 کی دہائی میں ہوا اور دو محبت کرنے والے عظیم فنکاروں کی خواہشات انڈیا اور پاکستان کے بنتے بگڑتے معاملات کی بھینٹ چڑھ گئیں۔

1998 میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے خواہش ظاہر کی تھی کہ لتا لاہور آکر کنسرٹ کریں، جس پر لتا منگیشکر نے پاکستانی میڈیا سے کہا تھا کہ ’میرا دل بھی چاہتا ہے میں اُڑ کر لاہور چلی جاؤں۔‘ اس انٹرویو میں ہی لتا نے انکشاف کیا تھا کہ ’استاد سلامت علی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے لاہور لے جائیں گے لیکن انھوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔‘

لتا منگیشکر کا یہ انٹرویو پڑھ کر استاد سلامت بہت دن تک اداس رہےاور لتا کا گایا یہ گیت ’لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو‘ گنگناتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے تھے، استاد سلامت نے کہا کہ ’لتا نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ وہ اُڑ کر لاہور پہنچ جائیں۔ ہمارا بھی دل چاہتا ہے کہ ہم اُڑ کر ہندوستان جائیں، اپنے آبائی گھر دیکھیں۔

استاد سلامت نے لتا منگیشکر سے شادی سے انکار سے متعلق کہا تھا کہ لتا بائی کوئی عام فنکارہ نہیں ہیں۔ ’انھیں ہندو سماج میں ایک دیوی مانا جاتا ہے، اس لیے لتا سے میری شادی ہونا آسان معاملہ نہیں تھا۔ اس وقت مجھے یوں لگا اگر میں نے لتا سے شادی کر لی تو کم از کم یہ ہو سکتا ہے کہ مجھے اور لتا کو ختم کر دیا جائے اور زیادہ سے زیادہ یہ بھی ممکن تھا کہ پاکستان اور انڈیا میں جنگ ہو جاتی۔

ایک مرتبہ استاد سلامت اور نزاکت خان بھارت میں لتا کے مہمان بنتے تو لتا منگیشکر نے اپنی تمام تر مصروفیات کینسل کر دی تھیں۔ درجنوں پروڈیوسر اور میوزک ڈائریکٹر اپنی فلموں کے گانوں کے لیے ڈیٹس لینے ان کے گھر آتے لیکن وہ کسی سے مل نہیں رہی تھیں۔‘

دونوں بھائی ممبئی میں زیادہ تر اپنے پروموٹر بادل چوہدری کے گھر میں قیام کرتے تھے وہ گھر لتا منگیشکر کے گھر کے قریب ہی تھا، لتا صبح اٹھ کر بادل چوہدری کے گھر آ جاتیں اور پھر رات تک استاد سلامت کے ساتھ رہتیں اور گھنٹوں تک ان سے گانے سنتی تھیں۔ وہ گھر سے نکلتے ہوئے گھونگھٹ اوڑھ لیتی تھیں تاکہ کوئی انھیں پہچان نہ سکے۔‘

لتا نے استاد سلامت کو ایک پیشکش بھی کی تھی وہ یہ کہ آپ چھ مہینے پاکستان میں اپنے بیوی بچوں کے پاس رہیں اور چھ ماہ ممبئی میں میرے ساتھ رہیں۔ استاد سلامت کی اہلیہ رضیہ بیگم کو بھی اس بات کا علم تھا کہ لتا نے خاں صاحب کو شادی کی پیشکش کی لیکن انہوں نے اپنے گھر اور بچوں کے لیے انکار کر دیا۔ دنیا کی ہر عورت کی وہ خو بھی لتا منگیشکر کی ڈائی ہارڈ فین تھی لیکن لتا اسے بطور سوتن قبول نہیں تھی۔‘

’جب استاد سلامت نے شادی کرنے سے انکار کر دیا تو لتا سے خاں صاحب سے ناراض ہو گئی تھیں۔

1978میں ایک محفل میں گاتے ہوئے استاد سلامت پر فالج کاحملہ ہو گیا۔ جس کے باعث انہیں بہت دنوں تک لندن کے ہسپتال میں زیر علاج رہنا پڑا، لیکن اس کے تمام تر اخراجات لتا منگیشکر نے ادا کیے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button