تازہ ترینسپیشل رپورٹ

یوم آزادی : قربانیوں کی الم ناک داستان

تحریر : پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی ، جامعہ نظام مصطفی بہاولپور

* 14 اگست 1947، 27 رمضان 1366ھ جمعہ کے دن پاکستان آزاد ہوا. یہ آزادی کی خوشیوں کے ساتھ ساتھ خون کے آنسو رلا دینے والا دن تھا۔ یہ دراصل آزادی کی ادھار چکانے کا دن تھا. شدید گرمی کا موسم تھا، ک-ف-ر کا آتش فشاں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ نفرت و عفونت اور قتل وغارت گری کا لاوا اگل رہا تھا۔ مسلمان آبادی والا ہر گلی کوچہ کربلا کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ہر سو خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی، وحشت و سفاکیت کے ہاتھوں انسانیت کا دامن تار تار ہو رہا تھا، ظلم کا دور دورہ تھا، ہر طرف چیخ و پکار تھی، فضا متعفن تھی، ایک ایک لمحہ قیامت بن کر گزر رہا تھا.
* جدھر بھی دیکھو مسلمان پٹ رہا تھا، گلے کٹ رہے تھے، لاشے خاک و خون میں تڑپ رہے تھے، بھوک اور پیاس سے زبانیں لٹک رہی تھیں ، سر تن سے جدا ہو رہے تھے ، سینے پھٹ رہے تھے، جسم کٹ رہے تھے، پرخچے اڑ رہے تھے، خون ٹپک رہا تھا، زندگی سسک رہی تھی ، آسمان جل رہا تھا، ، کلیجہ منہ کو آ رہا تھا، مائیں چلا رہی تھیں، بیٹیاں فریاد کر رہی تھیں، بہنوں بیٹیوں کے برہنہ جلوس نکالے جا رہے تھے، خون مسلم ارزاں ہو چکا تھا، اسلام کا تمسخر اڑایا جارہا تھا۔ لاشوں کے انبار اور ڈھانچوں کے ڈھیر لگ رہے تھے.
* ہندو ڈوگرہ فوج سکھوں اور ہندوؤں کے جتھوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا قتل عام کر رہی تھی۔ ڈوگرہ فوجیوں کے بھرے ہوۓ ٹرک مسلمان مہاجرین کے قافلوں کو جا لیتے اور گولیوں کی بوچھاڑ کر کے انہیں تہس نہس کر دیتے۔ نہ کوئی محمود غزنوی تھا، نہ محمد بن قاسم، نہ کوئی طارق بن زیاد تھا نہ صلاح الدین ایوبی جو مسلمانوں کی مدد کو آتا۔ ہرطرف ہندؤوں اور سکھوں کے خوں خوار مسلح یزیدی جتھے تھے یا پھر لرزاں و ترساں، افتاں وخیزاں، بے دست و پا نہتے مسلمان. یوں لگتا تھا جیسے لاکھوں بھیڑ بکریوں میں ہزاروں بھیڑیے گھس آئے ہوں. غرض ایک اندھیر نگری مچی ہوئی تھی.
* لندن ٹائمز کا نامہ نگار لوئیس ہیرن لکھتا ہے کہ میں نے خود امرتسر کے قریب چار ہزار مسلمانوں کا قتل عام دیکھا ان کی عورتوں اور بچوں تک کو قتل کر دیا گیا، عورتوں کی چھاتیاں کاٹ ڈالی گئیں جبکہ مردوں کے ہاتھ پاؤں اور سر تن سے جدا کر دئیے گئے.
* لندن کے اخبار ڈیلی میل کے نمائندہ خصوصی کو بذریعہ ٹرین لاہور سے دہلی جانے کا اتفاق ہوا، وہ لکھتا ہے کہ پاکستان کی سرحد عبور کرنے کے بعد میں نے جا بجا ہولناک مناظر دیکھے، گدھوں کے غول ہر گاؤں کی ریلوے لائن کے قریب اکٹھے ہو رہے تھے۔ فیروز پور کے مکانات سے شعلے اٹھ رہے تھے، کتے انسانی لاشوں کو جھنجوڑ جھنجھوڑ کر کھا رہے تھے۔ ایک جگہ ہماری گاڑی سے ذرا فاصلے پر انسانی لاشوں کا بہت بڑا ڈھیر نظر آیا، دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کے دو سپاہی وہاں مزید لاشوں سے لدی ہوئی ایک بیل گاڑی لاۓ، لاشوں کے پہلے ڈھیر پر ایک زندہ انسان ابھی کراہ رہا تھا، پولیس کے سپاہیوں نے اسے دیکھا لیکن وہ بیل گاڑی کی لاشوں کو اس کے اوپر پھینک کر چلتے بنے، سسکتا اور کراہتا ہوا انسان تازہ لاشوں کے نیچے دب گیا۔
* ایک بوڑھا کسان خاک و خون میں غلطاں اس ڈھیر سے تھوڑے فاصلے پر دم تو ڑ رہا تھا، اس کے گلے سے خون جاری تھا، اس کے ہاتھ کاٹ دیے گئے تھے، اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں، زمین پر ایک کتا اور درخت پر ایک گدھ اس کی موت کے انتظار میں اسے بے تابی سے گھور رہے تھے۔
* آج بھی وہ لوگ جو ہجرت کر کے پاکستان آۓ اور ابھی تک زندہ ہیں ان سے پوچھیے کہ ہر آنے والے قافلے پر کیا کیا قیامتیں نہیں گزریں، تلواریں تھیں ، برچھے تھیں ، کرپانیں تھیں، نیزے تھے، بھالے تھے، ماں باپ کے سامنے اولاد کی پیٹھوں میں چھرے گھونپ دیے جاتے. بیٹوں کو پرچھیوں میں پرو کر آگ میں بھوناجاتا، بیٹیوں کی عزتیں لوٹی جاتیں. ابلیسیت، فرعونیت اور شیطانیت آزادانہ رقص کرتی پھر رہیں تھیں اور روکنے والا کوئی نہ تھا۔
* ہندوؤں اور سکھوں کے حملوں کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ گاؤں کے ایک طرف بموں اور آتشیں ہتھیاروں کا مظاہرہ کر کے دیہاتیوں کو دوسری طرف بھاگنے پر مجبور کر دیتے، دوسری طرف سکھوں کا ایک اور ہجوم برچھیوں، تلواروں اور کرپانوں سے مسلح ان کا انتظار کرتا، جیسے ہی مسلمانوں کا ہجوم ان کے سامنے آتا ان سب پر یکبارگی حملہ کر کے انہیں قتل کر دیا جاتا، اس کے بعد پچاس پچاس یا سو سو نعشوں کے ڈھیر لگا کر انہیں آگ لگا دی جاتی ۔
اس طرح کے بہت سے انبار ہندوستان میں ہر ہر جگہ دیکھے جا سکتے تھے۔ اس قتل عام کے بعد یہ جتھےگاؤں کولوٹ لیتے اور پھر اسے آگ لگا دیتے۔
* سینکڑوں مقامات پر بیسیوں عورتوں اور بچوں کو گھروں کے اندر بند کر کے زندہ جلا دیا گیا، حاملہ عورتوں کے پیٹ پھاڑ کر بچوں کے سر کاٹ ڈالے گئے، ماؤں بہنوں کی عصمت دری کر کے انہیں نیزوں سے چھید ڈالا گیا ، نوجوان بیٹیوں کی آبرو ریزی کر کے انہیں بے بس رشتہ داروں کے سامنے قتل کر دیا گیا ۔اگر کسی عورت کے کان میں بالی نظر آئی تو کان ہی کاٹ ڈالے گئے۔ کم وبیش تیرہ سے سولہ لاکھ مسلمان اس موقع پر صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے
* پنجاب کے تقریبا تمام اضلاع اور کوہستان شملہ کی تمام
ریاستوں سے مسلمانوں کو منظم منصوبہ بندی کے تحت نکال دیا گیا حتی کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی حقیقت کبری کا اعلان کرنے والا ایک نفس بھی اس ستر ہزار مربع میل کے علاقے میں باقی نہ رہا۔ اکثر گولیوں کا شکار ہوۓ، بہت سے تلواروں بھالوں اور چھروں سے ذبح کیے گئے ۔ ایک بڑی تعدادان کے مکانوں سمیت زندہ جلا دی گئی۔ زمین مسلمانوں کے خون سے لالہ زار بن گئی، گلی کوچے فرزندان توحید کی لاشوں سے بٹ گئے ۔ گیڈروں، آوارہ کتوں، چیلوں اور گدھوں نے ان کا گوشت نوچ نوچ کر اتنا کھایا کہ مزید کھانے کی حاجت نہ رہی ۔
* ہزاروں عفت مآب مسلمان خواتین بزور شمشیر لونڈیاں بنائی گئیں، ہزاروں بچے بلموں کی نوک میں پرو دیئے گئے اور ہزاروں خاندان ہندو یا سکھ بنا لیے گئے۔ نوجوان مسلمان بہنوں کے نیم برہنہ غول کے غول بھیڑ بکریوں کی طرح گلی کوچوں میں فروخت ہو رہے تھے، جس کا دل چاہتا اس ریوڑ سے جس مسلمان بہن کو کوڑیوں کے مول خرید کر لے جاتا اور پھر وہ بہن ہمیشہ کے لیے یا تو ہندوؤں اور سکھوں کی کنیز بن جاتی یا پھر کچھ دنوں بعدا سے گوشت کے لوتھڑوں میں پھاڑ کر گدھوں اور کتوں کے حوالے کر دیا جاتا ۔
* یہ بڑی کرب ناک داستان ہے، یہ وحشت و دہشت کی داستان ہے ، یہ ظلم وستم اور چنگیزیت کی داستان ہے. یہ لٹی ہوئی جوانیوں اورا عضاء بریدہ لاشوں کی داستان ہے ، یہ خاک وخون میں تڑپتے ہوۓ معصوموں کی داستان ہے، یہ زخموں سے چور کراہتے ہوۓ بوڑھوں کی داستان ہے۔ یہ نیم مردہ سہمی ہوئی خوف زدہ ماؤں کی داستان ہے، یہ بہنوں کی عصمت کی خاطر قربان ہو جانے والے جیالوں کی داستان ہے، یہ امت مسلمہ کی لٹی ہوئی عزت و آبرو کی داستان ہے ، یہ ہندوؤں اور سکھوں کی کنیزیں بن جانے والی بہنوں اور بیٹیوں کی داستان ہے، یہ خون کے آنسو روتے ہوۓ دامن پھیلا کر فریاد دکرنے والی ماؤں کی داستان ہے۔یہ عزت و ناموس کے تحفظ کی خاطر اپنے والدین کے ہاتھوں ذبح ہو جانے والی، نیز کنوؤں اور دریاؤں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرنے والی دوشیزاؤں کی داستان ہے ۔
* لٹے پٹے، بے یار و مددگار، دہشت زدہ، بھوکے پیاسے، زرد رنگ، رندھے ہوۓ چہرے، گردوغبار سے اٹے بال، پھٹے ہوۓ دامن، ننگے پاؤں مردوں عورتوں بچوں اور جوانوں کے قافلے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی خاطر پاکستان کو چلے آ رہے تھے، کسی جوان نے اپنی بوڑھی ماں کو کندھے پر اٹھا رکھا تھا۔ کسی کے سر پر گٹھڑی تھی تو کسی کی بغل میں قرآن ۔ماؤں کی چھاتیاں خشک ہو چکی تھیں، شیر خوار بچے روتے روتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکے تھے۔ زخموں سے چور چور مسلمانوں کا خون بہہ بہہ کر سوکھ چکا تھا اور کپڑے خون کی وجہ سے اکڑ کر سیاہ ہو چکے تھے۔
* پاکستان آنے والے راستوں کے دونوں اطراف میں پہلے گزرنے والے قافلوں کی کریہ المنظر لاشیں پڑی تھیں اور سر پر بے رحم سورج پوری شدت سے چمک رہا تھا۔ یہ لٹے پٹے قافلے بتدریج کم ہوتے چلے جا رہے تھے۔ کچھ بھوک پیاس سے چل بسے، کسی کی چلتی سانس کو ہیضے نے بند کر دیا، کسی کو تھکاوٹ نے بار ہستی سے سبک دوش کر دیا ،کسی کی شمع حیات کو آفتاب کی تمازت نے گل کر دیا، کسی کا دل ماؤں بہنوں کی بے حرمتی سے ڈوب گیا اور کوئی وحشت ناک ماحول کو دیکھ کرغش کھا گیا ۔
* وہ دیکھیے ! ایک نوجوان معصوم لڑکی دریا کی طرف بھاگی جا رہی ہے، اس کے پیچھے ایک بدطنیت ہندو تلوار لہراتے ہوۓ دوڑ رہا ہے، نرم ونا زک کونپل نو کیلے پتھروں اور چبھتے کانٹوں سے گزر کر دریا کے قریب پہنچ چکی ہے ، ہندو خبیث بھی چند قدموں کے فاصلے پر ہے، ایک لمحے میں قوم کی بیٹی نے فیصلہ کیا اور چھلانگ لگا کر اپنے آپ کو دریا کی لہروں کے سپرد کر دیا کہ کہیں ہندو درندہ اس کی عزت کو میلا نہ کر دے۔
* ادھر نگاہ اٹھائیے! ایک مسلمان خاتون اپنے بچے کو گود میں چھپاۓ کھیتوں کی طرف بھاگی جا رہی ہے کہ شاید قاتلوں کی نظر سے بچ جاۓ، اس کا خاوند ، بھائی ، باپ اور سب عزیز درندگی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ، مگر یہ چھوئی موئی کہاں تک ان کا مقابلہ کرتی، درندوں نے اسے آ لیا اور تمسخر سے کہنے لگے : یہ بچہ کہاں جارہا ہے؟ یہ پاکستان جارہا ہے؟ لاؤاسے ابھی پاکستان پہنچاۓ دیتے ہیں اور پھر ظالموں نے اس معصوم کو نیزے میں پرو دیا ، خون کا ایک فوارہ نکلا ، بچہ چیخا ،تڑپ تڑپ کر ننھی معصوم نظروں سے ماں کو دیکھتے ہوئے جان دینے لگا اور پھر اس معصوم جان کو جلتے ہوۓ الاؤ میں ڈال دیا گیا، درندے رقص کرنے لگے ۔ معصوم کے جلنے کی ہو پاگل ہوتی ماں کی ناک تک پہنچی تو وہ بے ہوش ہو کر زمین بوس ہو گئی۔ اب ظالموں نے ماں کا جو حشر کیا وہ نا قابل بیان ہے اور یہ کسی ایک ماں کی سرگزشت نہیں لاکھوں ماؤں کا یہی قصہ ہے ۔
* یہ کوچہ رنگریزاں ہے! ایک مجسٹریٹ اس محلے کا معائنہ کر رہا ہے۔اس کے گلی کوچوں میں لاشوں کے سوا کچھ نہیں، مکانوں کے اندر جھانکا تو لاشوں سے اٹے پڑے ہیں ۔ ایک مسجد میں نظر ڈالی تو وہاں بھی لاشیں ہی لاشیں ہیں مگر نظریں جھکا لیجیے یہ سب مسلمان لڑکیوں کی لاشیں ہیں ۔امت مسلمہ کی ناموس کی چھیالیس برہنہ لاشیں، کٹی ہوئی گردنوں والی عصمت دریدہ لاشیں ۔
* ارے یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہاں ہندو بلوائی ایک ڈھیر کے گرد خوشی سے ناچ رہے ہیں۔ یہ کس چیز کا ڈھیر ہے؟ یہ مسلمان بہنوں کی کٹی ہوئی چھاتیوں کا ڈھیر ہے ۔اگر غیرت مسلم زندہ ہے تو سوچیے جب ہماری بہنوں کے زندہ جسموں سے کاٹ کاٹ کر یہ ڈھیر تیار کیا گیا ہو گا تو وہ کس قدر تڑپی ہوں گی ،ان کے جسم سے خون کے کس قدر فوارے پھوٹے ہوں گے ۔ کیا ان کی فریادوں سے آسمان دہل نہ گیا ہوگا؟ کیا ان کی آ ہ و زاری سے زمین کانپ نہ اٹھی ہو گی ۔کیا ان کی کربناک چیخوں سے فرشتگان فلک چیخ نہ پڑے ہوں گے۔
* ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یوم آزادی 27 رمضان کو سنجیدگی، وقار اور شکرانے کے ساتھ منایا جاتا اور اپنے رب کریم سے عہد کیا جاتا کہ جب تک تحریک پاکستان کا بنیادی نعرہ ”پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ مجسم صورت میں سامنے نہیں آ جاتا ، ہمارا کوئی بھی فرد چین سے نہ بیٹھے گا۔ آزادی کا مطلب تو یہ تھا کہ ہم اسلامی نظام کو نافذ کرنے میں آزاد ہیں مگر یہ کیا ہو گیا کہ ہم نے آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی لے لیا۔
* کیا لاکھوں بیٹیوں نے جانوں کے نذرانے اس لیے پیش کیے تھے کہ ہم لاکھوں پٹاخے بجا سکیں ۔ کیا لاکھوں ماؤں نے قدم قدم پر ٹھوکریں اس لیے کھائی تھیں کہ ہم لاکھوں افراد کو میوزیکل شو بے جھجک اور بے دھڑک دکھا سکیں ۔ کیا لاکھوں بہنیں اس لیے ذبح ہوئی تھیں کہ ہم اپنی مسلمان بہنوں سے سرعام چھیٹر خوانی کر سکیں ۔ کیا لاکھوں جوان اس لیے قربان ہوئے تھے کہ ہم سر عام رقص کر سکیں ۔
* کیا بزرگوں نے اپنا سب کچھ اس لیے لٹایا تھا کہ ہم قومی دولت کو بے دریغ لوٹ سکیں۔ کیا ننھے منے بچے نیزوں میں اس لیے پروۓ گئے تھے کہ ہم اپنے معصوم بچوں کو سکولوں میں ناچتا ہوا دیکھ سکیں ۔ کیا لاشوں کے انبار اس لیے لگے تھے کہ ہم آتشی اناروں اور شراروں کے انبار لگا سکیں ۔ کیا برہنہ جلوسوں کا مقصد یہ تھا کہ ہم اپنی ماؤں بہنوں کو سڑکوں، بازاروں، فلموں، ڈراموں اور گانوں باجوں کی نمائش بنا سکیں.
* کیا یہ ہولناک واقعات اس لیے رونما ہوئے تھے کہ ہم دکانوں اور چوراہوں پر فلمیں چلا سکیں ۔ کیا بے حساب گردنیں اس لیے کٹی تھیں کہ ہمارے گلے فحش گانوں کے قابل ہوسکیں۔ کیا ان گنت ننھے شہزادے اس لیے آگ میں جلے تھے کہ ہم اپنے شہزادوں کو ڈسکو ڈانس سکھا سکیں۔کیا مسلمانوں کی عفت مآب بیٹیاں بازاروں میں اس لیے فروخت ہوئی تھیں کہ ہم اپنی بیٹیوں کو جنس بازار بنا سکیں۔ کیامسلم دوشیزاؤں کی عصمت دری کا عوض یہ تھا کہ ہم بھی اپنے ملک میں آبروریزی کے بازار گرم کر سکیں ۔ کیا غیور جوانوں نے سینوں پر گولیوں کی بوچھاڑیں اس لیے کھائی تھیں کہ ہم بھی ایک دوسرے پر گولیوں کی بوچھاڑیں کر سکیں ۔ کیا کتوں اور گدھوں سے معزز مسلمانوں کی لاشیں نچوانے کا مقصد یہ تھا کہ ہم ایک دوسرے سے دست و گر یباں ہو سکیں. کیا ہندو درندوں کی کھلی نفرتوں کا مطلب یہ تھا کہ ہم ان سے دوستانہ روابط قائم کر سکیں ۔
* کیا ہزاروں لاشوں کو آ گ اس لیے لگائی گئی تھی کہ ہم آتش بازی کے مظاہرے کر سکیں ۔ کیا طلباء نے جام شہادت اس لیے نوش کیا تھا کہ ہمارے ستر فیصد لوگ جہالت کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارسکیں ۔ کیا مریضوں نے اپنی جانیں اسی لیے با رگاه ایزدی میں پیش کی تھیں کہ اسلامی جمہوریہ کے مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مر سکیں ۔ کیا مسلمانوں کی قیامت خیز چیخوں اور ہندوؤں کے مکروہ قہقہوں کا معنی یہ تھا کہ ہم چودہ اگست کو ہلڑ بازی، شور و غوغا ،ہاؤ ہو اور طوفان بدتمیزی برپا کر سکیں ۔
مسلمانو! جواب دو! چشم پرنم سوال کرتی ہے۔ دل دردمند فریاد کرتا ہے ۔
کیا اسی لیے تقدیر نے چنواۓ تھے تنکے
کہ بن جاۓ نشیمن تو کوئی آ گ لگادے
* کیا پاکستان میں لا الہ الا اللہ کا نظام نافذ ہو چکا۔ کیا اسلام کا قانونی ، سیاسی، معاشی، تعلیمی اخلاقی نظام بروۓ کار لایا جاسکا۔ کیا نظام صلوۃ ، نظام زکوۃ، نظام ج ہ ا د اور نظام حدود عملاً لاگو ہو چکے، کیا سود و رشوت اور حرام خوری کا انسداد ہو چکا، کیا مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کومکمل تحفظ حاصل ہو چکا۔ کیا اللہ ورسول کے احکام اور قرآن و سنت کو بالادستی حاصل ہو چکی؟؟
اگر نہیں تو پھریہ پٹاخے ، یہ آتش بازیاں ،یہ رقص وسرود، یہ جشن، یہ ہلڑ بازی، یہ قہقہے ! چہ معنی دارد؟
* مسلمانو! کان کھول کر سن لو! اگر صورت حال یہی رہی تو پھر اللہ نہ کرے کہ 14 اگست 1947 کا پرانا محشر ایک بار پھر ہماری آنکھوں کے سامنے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک بار پھر ہمارے خون سے ہولی کھیلی جاۓ اور دنیا ہمیں ہمارے کرتوتوں اور بداعمالیوں کی سزا پاتا دیکھ سکے۔۔
* بہرحال رب سے امید اچھی رکھنی چاہیے،آخر لاکھوں جسموں کا خون یوں رائیگاں تو نہ جاۓ گا، عفت مآب بہنوں کی چیخ و پکار کچھ تو رنگ دکھائی گی، ننھی معصوم جانوں کی تڑپتی لاشوں کا کچھ تو نتیجہ نکلے گا ، اجتماعی قبروں سے کوئی نہ کوئی طوفان تو باہر آۓ گا.
یاد رکھو رب کی بارگاہ میں دیر تو ہے مگر اندھیر بالکل نہیں ہے.
کھول کر آنکھیں میرے آئینہ گفتار میں آنےوالے دور کی دھندلی سی تصویردیکھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button