ادبتازہ ترین

3فروری1940ء یوم ولادت کشور ناہید

کشور ناہید 1940 میں بلند شہر (ہندوستان) میں ایک قدامت پسند سید گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد آٹھویں جماعت میں تعلیم کو خیرباد کہہ دیا تھا۔
میٹرک کے بعد اپنی ضد منوا کر کالج میں داخلہ لیا۔ فرسٹ ایر سے ہی شعر کہنے کا سلسلہ شروع ہوا۔گھر والوں کی شدید مخالفت کے باوجود اُن کا علمی ادبی سفر جاری رہا۔ تعلیمی دور تقریری مقابلوں اور مشاعروں میں حصہ لیتی رہیں اور ان کا کلام ادبی رسائل میں چھپتا رہا۔ پنجاب یونیورسٹی میں معاشیات میں ایم اے کے دوسرے سال میں تھیں جب گھر والوں کو یوسف کامران کے ساتھ اُن کی دوستی کا علم ہوا۔ ایک ایسے گھرانے میں جہاں رشتے کے بھائیوں سے بات کرنا بھی ممنوع تھا وہاں یہ خبر قیامت سے کم نہیں تھی۔ اس جرم کی پاداش میں کشور اور یوسف کا نکاح پڑھوا دیا گیا۔ کشور کی شادی گو کہ پسند کی شادی تھی مگر اُن کے ازدواجی حالات کچھ اایسے خوشگوار نہ تھے۔کشور اور یوسف کے دو صاحبزادے ہیں۔ یوسف کامران 1984میں انتقال کر گئے۔
کشور ناہید کے چھ شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کو ۱۹۶۹ء میں ان کی کتاب ’’لب گویا‘‘ پر آدم جی ایوارڈ بھی ملا۔ انہوں نے فرانس کی مشہور ناول نگار سمعون ڈی بوار کی کتاب ’’سیکنڈ سیکس‘‘ کا اردو ترجمہ ۱۹۸۳ء میں ’’عورت‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ کشور ناہید کی متعدد نظموں کا انگلش اور ہسپانوی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
کشور ناہید کو آدم جی ایوارڈ کے علاوہ یونیسکو پر اثر منڈیلا ایوارڈ، ستارئہ امتیاز اور کولمبیا یونیورسٹی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

ایوارڈز۔۔۔۔

آدم جی ایوارڈ (لب گویا ) 1969
یونیسکو ادب برائے اطفال ایوارڈ(دیس دیس کی کہانیاں)
کولمبیا یونی ورسٹی (بہترین مترجمہ)
منڈیلا ایوارڈ 1997
ستارۂ امتیاز 2000[5]

.
دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے
اس کو بھی بھولنا اچھا لگا پہلے پہلے

دل تھا شب زاد اسے کس کی رفاقت ملتی
خواب تعبیر سے چھپتا رہا پہلے پہلے

پہلے پہلے وہی انداز تھا دریا جیسا
پاس آ آ کے پلٹتا رہا پہلے پہلے

آنکھ آئنوں کی حیرت نہیں جاتی اب تک
ہجر کا گھاؤ بھی اس نے دیا پہلے پہلے

کھیل کرنے کو بہت تھے دل خواہش دیدہ
کیوں ہوا دیکھ جلایا دیا پہلے پہلے

عمر آئندہ کے خوابوں کو پیاسا رکھا
فاصلہ پاؤں پکڑتا رہا پہلے پہلے

ناخن بے خبری زخم بناتا ہی رہا
کوئے وحشت میں تو رستہ نہ تھا پہلے پہلے

اب تو اس شخص کا پیکر بھی گل خواب نہیں
جو کبھی مجھ میں تھا مجھ جیسا تھا پہلے پہلے

اب وہ پیاسا ہے تو ہر بوند بھی پوچھے نسبت
وہ جو دریاؤں پہ ہنستا رہا پہلے پہلے

وہ ملاقات کا موسم نہیں آیا اب کے
جو سر خواب سنورتا رہا پہلے پہلے

غم کا دریا مری آنکھوں میں سمٹ کر پوچھے
کون رو رو کے بچھڑتا رہا پہلے پہلے

اب جو آنکھیں ہوئیں صحرا تو کھلا ہر منظر
دل بھی وحشت کو ترستا رہا پہلے پہلے

میں تھی دیوار تو اب کس کا ہے سایہ تجھ پر
ایسا صحرا زدہ چہرا نہ تھا پہلے پہلے

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button