پاکستانتازہ ترین

آرٹیکل 63 اے آئین کا حصہ ہے اور آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت میں ریمارکس دیئے کہ یہ آرٹیکل آئین کا حصہ ہے اور آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے، آئین کی تشریح سپریم کورٹ کرسکتی ہے اور کرے گی۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ صدارتی ریفرنس کی سماعت کررہا ہے، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

ریفرنس کی آج کی سماعت میں مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان کو دلائل دینے تھے تاہم ان کے معاون وکیل عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ مخدوم علی خان ملک میں موجود نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ ریفرنس کے ساتھ آئینی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں، نہیں چاہتے کہ ریفرنس پر رائے میں مزید تاخیر ہو۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ مخدوم علی خان بیرون ملک سےکب واپس آئیں گے؟ مخدوم علی خان نے 17 مئی کو کیس سماعت کے لیے مقرر کرنے کا کہا تھا، معاون وکیل نے بتایا کہ 15 مئی کی شام وہ واپس آئیں گے۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ نئے اٹارنی جنرل آ رہے ہیں؟ انہوں نے جواب میں بتایا کہ اٹارنی جنرل کی تعیناتی کے کچھ معاملات باقی ہیں، نئے اٹارنی جنرل آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے نوٹس میں چند باتیں لانا چاہتا ہوں، آرٹیکل 63 اے کےتحت منحرف اراکین کیخلاف ریفرنسز الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہیں، الیکشن کمیشن منحرف اراکین سے متعلق 30 دن میں فیصلہ دے گا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایک جماعت نےمنحرف اراکین کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو اس بات کا علم ہے کہ الیکشن کمیشن میں ریفرنسز زیر التوا ہیں، سپریم کورٹ کے پاس وقت ہے نہ گنجائش کہ ہر منحرف رکن کیخلاف الگ الگ 5 ممبرز بینچ سماعت کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے آئین کا حصہ ہے اور آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے، آئین کی تشریح سپریم کورٹ کرسکتی ہے اور کرے گی۔

واضح رہے کہ صدر مملکت نے منحرف اراکین سے متعلق آرٹیکل63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔

سپریم کورٹ تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر آرٹیکل 63 اے پر رائے دے گی۔

ریفرنس کی گزشتہ سماعتوں میں اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل اور سیاسی جماعتوں کے وکلاء کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button