تازہ ترینجرم کہانی

کوئٹہ سے گرفتار خاتون خودکش بمبار سے متعلق سنسنی خیز انکشافات

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ ( Quetta ) سے گرفتار ( Female Suicide Bomber ) خاتون خود کش حملہ آور سے متعلق مزید سنسنی خیز انکشافات سامنے آگئے ہیں۔ خاتون خودکش حملہ آور کے شوہر کا تعلق کالعدم بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ ( بی ایل ایف) سے ہے۔

باوثوق ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن کے لیڈیز پارک سے گرفتار خودکش حملہ آور خاتون کے بارے میں ہوش ربا انکشافات میں بتایا گیا ہے کہ خودکش حملہ آور خاتون کے شوہر بیباگار بلوچ عرف ندیم کا تعلق بھی کالعدم بی ایل ایف سے ہے، جب کہ اس کا سسر ماسٹر حسین بھی کالعدم بلوچستان نیشنل موؤمنٹ ( بی این ایم ) کی مرکزی کمیٹی کا رکن ہے۔

شوہر بیباگار بلوچ اور اس کا بھاٸی کالعدم بلوچستان لیبریشن فرنٹ ( بی ایل ایف ) کے کمانڈروں واحد قمبر، ڈاکٹر اللہ نذر، دلیپ شکاری اور بی این ایم کا چیئرمین غلام نبی ہیبتان کے قریب ترین ساتھیوں میں شامل تھا۔ یہ دونوں سال 2016 میں پیسے اور ہتھیاروں پر آپس کی لڑائی میں مارے گٸے تھے۔

ماہل بلوچ کی بہن کی شادی بھی ڈاکٹر اللہ نذر کے بھتیجے یوسف سے ہوٸی تھی۔ یوسف بلوچ حقوق کی تنظیم کا چٸیرمین ہے۔ ماہل کو استعمال کرنے کا مقصد بھی یہ تھا کہ وہ کالعدم بی ایل ایف کو سپورٹ کرے۔

واضح رہے کہ مذکورہ خاتون خود کش حملہ آور کو گزشتہ روز 18 فروری بروز ہفتہ محکمہ انسداد دہشت گردی ( سی ٹی ڈی ) بلوچستان نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

گرفتار خاتون سے ساڑھے 4 کلو گرام وزنی خودکش جیکٹ بھی برآمد ہوئی تھی۔

ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق خاتون خودکش بمبار کیخلاف تھانہ سی ٹی ڈی میں مقدمہ درج کرکے مزید تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال کراچی یونیورسٹی کے قریب کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والی خاتون نے خودکش دھماکا کیا گیا جس میں دو خواتین سمیت 3 چینی باشندوں ہلاک ہوگئے تھے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں جاری سیکیورٹی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ بلوچستان کی کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں نے اب بلوچ خواتین کو اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

گزشتہ سال بلوچستان میں فعال کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے مبینہ تعلق اور دہشت گردی خصوصاً خودکش حملوں میں استعمال ہونے کے الزامات کی بنا پر دو بلوچ خواتین کی گرفتاری کے خلاف صوبے کے مکران ریجن میں کئی روز تک احتجاج بھی کیا گیا تھا۔

سیکیورٹی اداروں نے کراچی سے بلوچ شاعرہ حبیبہ پیر جان کو 19 مئی کو حراست میں لیا تھا لیکن انہیں دو روز بعد رہا کر دیا گیا جب کہ 15 مئی کو بلوچستان کے علاقے ہوشاپ سےگرفتار ہونے والی نور جہاں بلوچ اب بھی زیرِ حراست تھا۔

بلوچستان کے معاملات سے باخبرحلقے بلوچ خواتین کی حالیہ گرفتاریوں کو کراچی یونیورسٹی میں 26اپریل کو ہونے والے خود کش حملے سے جوڑ رہے تھے۔ اس حملے کی ذمے داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی ذیلی تنظیم مجید بریگیڈ نے قبول کی تھی جس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ تنظیم کی جانب سے خاتون خودکش حملہ آور کو استعمال کیا گیا۔

بی ایل اے نے مزید کہا تھا کہ خودکش حملوں کے لیے تشکیل کردہ علیحدہ یونٹ ’مجید بریگیڈ‘ کے درجنوں اعلیٰ تربیت یافتہ مرد وخواتین فدائین مہلک حملوں کے لیے مکمل تیارہیں۔

بلوچستان کی کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں خصوصاً کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اورکالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ نے حالیہ برسوں کے دوران تعلیمی اداروں میں بلوچ نوجوانوں کوبھرتی کیاہے اور ایک بڑی تعداد میں نوجوان خواتین بھی ان تنظیموں کا حصہ بنی ہیں جن میں شاری بلوچ بھی شامل تھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button