دنیا

غزہ میں مجوزہ جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات سامنے آگئیں، حماس کے ردعمل کا انتظار

امریکی حکام نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے مجوزہ معاہدے کو اسرائیلی حکام نے قبول کر لیا ہے تاہم اب معاہدے کو قبول کرنے کے لیے گیند حماس کے کورٹ میں ہے۔

العربیہ اور الحدث نے مجوزہ معاہدے کی بعض تفصیلات حاصل کی ہیں۔

العربیہ/الحدث کے ذرائع نے اتوار کو اطلاع دی ہے کہ حماس اپنا حتمی جواب جلد ہی ثالثوں کو بھیجے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حماس کا ایک وفد آنے والے گھنٹوں میں مصر میں ثالثوں کے ساتھ ملاقات کرےگا۔

اس میں جنگ بندی کی مدت اور قیدیوں کی تعداد پر تنازعہ بھی سامنے آیا، کیونکہ حماس نے دنوں کی تعداد میں اضافے اور رہا کیے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ تل ابیب نے حماس کو مطلوب قیدیوں کے ناموں کو مسترد کردیا۔

اسرائیل نے ثالثوں سے ایک تفصیلی بیان طلب کیا جس میں بقیہ قیدیوں کی تعداد، جنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ ان میں سے ہر ایک کی صحت کی مکمل حالت اور تفصیل شامل تھی۔

اسرائیل کو حماس کے زیر حراست فوجی قیدیوں کی تعداد کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

تل ابیب نے ثالثوں سے مطالبہ کیا کہ وہ قیدیوں کی حالت جاننے، ان کی جانچ پڑتال اور ادویات کی آمد کی تصدیق میں زیادہ کردار ادا کریں۔

جبکہ حماس نے ثالثوں کو مطلع کیا کہ اس کے پاس صرف کچھ قیدی ہیں اور وہ ان کی شرائط کا تعین کرنے کے لیے دھڑوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ اس کے لیے وقت درکار ہے کیونکہ اس کے پاس موجود قیدیوں کی مکمل تعداد کے حوالے سے تصدیق شدہ یا حتمی فہرست موجود نہیں ہے۔

حماس نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ اسرائیل فلسطینی نظربندوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے۔

تحریک نے ثالثوں سے کہا کہ اسرائیل 7 اکتوبر کے حملے کے بعد حراست میں لیے گئے افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرے۔

یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ثالث ایک معاہدے کے مسودے پر کام کر رہے ہیں جس میں رمضان کے مہینے میں دن بھر اور 3 مرحلوں میں محصور غزہ میں امداد کا داخلہ شامل ہے۔

متعدد ہسپتالوں میں طبی سروسز بحال کرنے اور فوری طبی سامان لانے کے لیے کام کرنا مجوزہ معاہدے کا حصہ ہے۔ ساتھ ہی امداد کے داخلے کے لیے کراسنگ کو مکمل طور پر دوبارہ کھولنے کرنے، زخمیوں کی سب سے بڑی تعداد کو بغیر کسی پابندی کے وہاں سے جانے کی اجازت دینا شامل ہے۔

قابل ذکر ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جنگ چند دنوں کے بعد چھٹے مہینے میں داخل ہو رہی ہے جس میں 30 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

فوری جنگ بندی کے بین الاقوامی مطالبات کے درمیان ایک امریکی اہلکار نے ہفتے کے روز کہا کہ غزہ میں مجوزہ جنگ بندی کی قسمت کا انحصار حماس کے "ایک مخصوص زمرے کے قیدیوں” کو رہا کرنے پر رضامندی کے بعد اسرائیل کی جانب سے معاہدے کے وسیع خاکہ کو قبول پر ہے۔

اہلکار نےنام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ کہ گیند اب حماس کے کورٹ میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فریم ورک موجود ہے اور اسرائیلیوں نے اسے عملی طور پر قبول کر لیا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ غزہ میں چھ ہفتے کی جنگ بندی آج سے شروع ہو سکتی ہے اگر حماس خطرے میں پڑنے والے قیدیوں کی مخصوص قسم کی رہائی پر رضامند ہو جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button