انڈیا میں جعلی سرکاری دفتر، جعلی سرکاری افسران، جعلی ٹول پلازہ، اور جعلی بینک کے بعد اب ریاست گجرات میں ایک جعلی اور فرضی عدالت کا بھانڈا پھوٹا ہے جس میں ناصرف جعلی جج، جعلی وکیل اور جعلی اردلی موجود تھے بلکہ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر مقدمات کی سماعت ہوتی تھی اور فیصلے سُنائے جاتے تھے۔
ریاستی دارالحکومت احمد آباد پولیس نے پیر کے روز ایک شخص (جعلی جج) کے خلاف فرضی ثالثی ٹربیونل چلانے اور سنہ 2019 اور 2024 کے درمیان ثالثی کے متعدد احکامات پاس کرنے کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔
اس ایف آئی آر کے اندراج کے بعد پولیس نے گاندھی نگر کے رہائشی 37 سالہ مورس سیموئل کرسچن کو گرفتار کر لیا ہے جو مبینہ طور پر اس ثالثی عدالت میں جج کا کردار ادا کرتے تھے۔ یہ خبر سامنے آنے کے بعد ناصرف سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے اور لوگ طرح طرح کے میمز بھی شیئر کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ ابھی کچھ دن پہلے ایک اور انڈین ریاست چھتیس گڑھ میں سٹیٹ بینک آف انڈیا کی جعلی برانچ کا معاملہ سامنے آیا تھا جس میں جعلی تقرریوں کے عوض شہریوں سے لاکھوں روپے بٹورے گئے تھے۔
بہرحال مبینہ جعلی عدالت کے معاملے پر پولیس نے بتایا ہے کہ مورس سیموئل کرسچن کو درج کی گئی ایف آئی آر پر تحقیقات کے بعد گرفتار کر لیا ہے۔ انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ ایف آئی آر احمدآباد کے سٹی سول کورٹ کے رجسٹرار ہاردک دیسائی کی شکایت پر درج کی گئی تھی۔
پولیس نے بتایا کہ مورس سیموئل گذشتہ کئی برس سے ثالثی پر مبنی فیصلے بھی سُنا رہے تھے۔ سنہ 2019 میں مورس سیموئل نے ایک شخص چندا جی ٹھاکر کے حق میں زمین کی ملکیت کے ایک تنازعے سے متعلق فیصلہ سنایا تھا۔
تاہم یہ کیس چلتے چلتے جب احمد آباد کی سول عدالت میں عملدرآمد کے لیے پیش کیا گیا تو عدالتی حکام نے اس کیس کے ساتھ لف دستاویزات کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور پولیس میں شکایت کی گئی جس کی بنیاد پر یہ گرفتاری عمل میں آئی۔
پولیس کے مطابق مورس کرسچیئن مبینہ طور پر گذشتہ کئی برسوں سے اُن لوگوں کو نشانہ بنا رہا تھا جن کے زمین کی ملکیت سے متعلق تنازعات سول کورٹ میں زیر التوا تھے۔ وہ انھیں اپنے مقدمات کے حل کے لیے فیس ادا کرنے پر مجبور کرتے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ کرسچیئن خود کو عدالت کے مقرر کردہ سرکاری آربٹریٹر یا منصف کے طور پر پیش کرتے، اپنے مؤکل کو اپنے نجی دفتر بلاتے جو ایک عدالت کے کمرے کی طرح نظر آتا تھا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ کرسچن نے اپنے دفتر میں ’کمرہ عدالت جیسا ماحول‘ قائم کیا ہوا تھا۔ اُن کے ساتھی عدالتی عملے یا وکیل کے طور پر اُن کے سامنے پیش ہوتے اور وہ جج کا روپ دھار کر ثالثی پر مبنی جھوٹے احکامات جاری کرتے۔
پولیس کے مطابق جھوٹی عدالتی کارروائیوں کے ذریعے وہ مبینہ طور پر قیمتی سرکاری اراضی کی ملکیت کے فیصلے نجی افراد کو منتقل کرنے کے دعوے تیار کرواتے اور اس ضمن میں فیصلے سناتے۔
صحافی بھارگو پاریکھ نے یہ پتا چلانے کی کوشش کی کہ آخر مورس سیموئل کرسچن کون ہیں جنھوں نے اتنے دنوں تک بھولی بھالی عوام کو لوٹا اور یہاں تک کہ سرکاری افسران اور کلکٹر تک کو اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروانے سے متعلق نوٹس بھیجے۔
احمد آباد زون-2 کے ڈی سی پی شریپال شیشاما نے کہا کہ مورس کرسچن در اصل سابرمتی کے رہنے والے ہیں۔ کرائم برانچ میں درج تفصیلات کے مطابق جھوٹے دستاویزات کی بنیاد پر سنہ 2015 میں ان کے خلاف دو مقدمات دائر کیے گئے تھے۔
مورس کرسچن کے ایک پرانے پڑوسی سیموئیل فرناڈس نے بتایا کہ مورس بچپن سے ہی ’بڑے خواب دیکھنے والے انسان‘ تھے۔
سیموئل فرنانڈس نے دعویٰ کیا کہ اُن کی لوگوں سے پیسے اُدھار لے کر واپس نہ کرنے کی عادت تھی اور اسی نوعیت کے تنازعات اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے انھیں اپنے پرانے علاقے سے نکلنا پڑا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ اس کے بعد کی زندگی کے بارے میں انھیں نہیں معلوم کیونکہ کرسچن کا خاندان ان کے علاقے سے منتقل ہو گیا تھا۔
سیموئل کے مطابق بعدازاں وہ ان سے ایک دفعہ ملے تھے اور اس ملاقات میں انھوں نے بتایا تھا کہ انھوں نے بیرون ملک تعلیم حاصل کر لی ہے جس کے بعد وہ جج بن گئے ہیں۔
اسی طرح گجرات بار کونسل کی ڈسپلنری کمیٹی کے چیئرمین انیل کیلا نے بی بی سی سے بات چیت میں کہا کہ ‘سنہ 2006 کے آخر میں ہم ایک 28-29 سالہ نوجوان کو کالے کوٹ میں وکلا کے ساتھ گھومتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔ احمد آباد کی مختلف عدالتوں میں لمبے بالوں والا ایک شخص بیگ پکڑے اسسٹنٹ کے ساتھ کالے کوٹ میں ملبوس نظر آتا تھا۔‘
’ہمیں لگا کہ 28-29 سال کا ایک نوجوان کسی کا معاون بن کر سیکھنے آ رہا ہے۔ ایک بار جب ہم نے ان سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی ہے اور اس کے پاس ہر ملک میں قانون کی پریکٹس کرنے کے لیے ڈگری ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں پہلا شک یہ ہے کہ اگر کوئی غیر ملکی بڑی ڈگری لے کر آتا ہے تو وہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتا ہے وہ لوئر کورٹ میں پریکٹس کیوں کرے گا؟ لہٰذا بار کونسل نے اُن کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کی تو ان کی ڈگری جعلی ثابت ہوئی، اس کے پاس وکالت کا لائسنس بھی نہیں تھا، اس لیے ہم نے اس کے خلاف شکایت درج کروائی تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ احمد آباد میں کئی وکلا اُن کے کرتوتوں سے واقف تو تھے مگر یہ نہیں پتا تھا کہ وہ اپنی فرضی عدالت بھی چلا رہے ہیں۔
سنہ 2015 میں عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے حکومت نے خصوصی ثالثی عدالتیں قائم کی تھیں جن کے تحت فریقین کی منظوری سے مقدمات کے حل کے لیے ثالث اور مصالحت کار مقرر کیے جاتے ہیں۔
مورس کرسچن نے کہیں سے ثالث کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا اور اپنی جعلی عدالت شروع کر دی۔ سب سے پہلے انھوں نے گاندھی نگر کے سیکٹر 21 میں عدالت شروع کی، جہاں انھوں نے دو ٹائپسٹ رکھے، ایک اردلی رکھا اور فیصلے سنانا شروع کر دیے۔
اسی طرح کے ایک متنازع فیصلے کے بعد جب اس کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی گئی تو وہ راتوں رات اپنی عدالت بند کر کے گاندھی نگر کے سیکٹر 24 میں منتقل ہو گئے اور یہ کام وہاں شروع کر دیا۔
سٹی سول کورٹ کے مطابق مورس کرسچن نے متنازع اراضی کے مقدمات میں ایک سال میں 500 فیصلے سنائے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس تعلق سے جعل سازی اور دھوکے کے پرانے واقعات بھی پیش کیے جا رہے ہیں جبکہ کچھ لوگ ریاست گجرات کو اس معاملے میں سب سے آگے بتا رہے ہیں۔
نیہر ہو نامی ایک صارف نے خبر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’تصور کریں کہ وہ پانچ سالوں تک یہ کام کرتا رہا اور کسی کی توجہ نہیں گئی۔ جعلی کرنسی، جعلی ڈگریاں، جعلی تاجر، جعلی عالمی رہنما، جعلی جج، جعلی عدالت۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ گجرات میں ایک ہی چیز اصلی ہے وہ منشیات ہے جو وہ پکڑتے ہیں اور ہر کوئی اسی میں مست ہے۔‘