دلچسپ و حیرت انگیز

تربوز فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی اور مزاحمت کی علامت کیسے بنا؟

گذشتہ تین مہینوں کے دوران بینرز اور ٹی شرٹس اور غباروں اور سوشل میڈیا پوسٹس پر دنیا بھر میں اسرائیل اور حماس جنگ کے خلاف مظاہروں کی ایک تصویر ابھری ہے جس میں ’’تربوز‘‘ کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

سرخ گودے، سبز سفید چھلکے اور سیاہ بیجوں کے ساتھ کٹے ہوئے تربوز کے رنگ وہی ہیں جو فلسطینی پرچم پر ہیں۔ نیویارک اور تل ابیب سے لے کر دبئی اور بلغراد تک یہ پھل یکجہتی کی علامت بن گیا ہے جو مختلف زبانیں بولنے والے یا مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لیکن ایک مشترکہ مقصد کے حامل کارکنان کو یکجا کرتا ہے۔

جابرانہ سنسرشپ سے بچنے کے لیے چینی مخالفین نے ایک بار "الگو سپیک” یا تخلیقی شارٹ ہینڈز کا آغاز کیا جو مواد کے اعتدال کو نظرانداز کرتے ہیں، نے حال ہی میں ونی دی پوہ میمز کے ساتھ چینی صدر شی جن پنگ کا مذاق اڑاتے ہوئے دیکھا۔ دنیا بھر کے لوگوں نے ٹک ٹاک، انسٹاگرام، اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم پر مبنی تعصبات سے بچنے کے لیے الگو سپیک کا استعمال شروع کر دیا۔

انٹرنیٹ اب تصویری علامات سے بھرا پڑا ہے – پکسل والے امیجز، ایموجی اور دیگر ٹائپوگرافیکل کوڈز – جو سیاسی اختلاف کا اشارہ دیتے ہیں۔ تربوز کا ایموجی اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ یہاں یہ پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح تربوز مغربی کنارے اور غزہ میں احتجاج کی علامت سے فلسطینیوں کے ساتھ آن لائن یکجہتی کی عالمی علامت بن گیا۔

فلسطینیوں کے لیے تربوز پہلی بار نصف صدی قبل 1967 میں مزاحمت اور شناخت کی علامت بنا تھا۔

اس وقت 1967 میں اسرائیل نے حملے کرکے مغربی کنارے اور بیت المقدس (یروشلم) شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کرلیا تھا اور اپنے قبضہ شدہ علاقوں میں فلسطینی پرچم کی نمائش کو جرم قرار دے دیا تھا۔

اسرائیل کی جانب سے فلسطینی پرچم کی نمائش کو جرم قرار دیے جانے کے بعد 1967 میں ہی لوگوں نے تربوز کو پرچم کے متبادل کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا اور اسے اپنی شناخت کے لیے بھی استعمال کیا۔

اس کے بعد فلسطین میں آج تک مختلف اوقات اور جنگوں کے مواقع پر تربوز کو مزاحمت اور شناخت کی علامت کے طور پر استعمال کیا آتا رہا ہے۔

فلسطین میں 1993 میں بھی تربوز کو بطور پرچم اور شناخت زیادہ استعمال کیا گیا کیوں کہ اس وقت بھی اسرائیلی حکومت نے فلسطینی پرچم کی نمائش پر پابندی لگاتے ہوئے اسے جرم قرار دیا تھا۔

اسی طرح اسرائیل کی جانب فلسطین پر قبضے کیے جانے کے بعد اب تک متعدد مواقع پر فلسطینیوں نے منفرد احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے تربوز کو مزاحمت کے طور پر استعمال کیا ہے۔

سال 2007 میں فلسطینی آرٹسٹ خالد حورانی نے فلسطین کی کہانیوں پر مبنی ایک کتاب کے لیے تربوز کے پرچم کا آرٹ تیار کیا تھا، جس کے بعد تربوز کے آرٹ کو فلسطینی پرچم کے طور پر بنانے کے عمل میں تیزی دیکھی گئی اور آج نہ صرف فلسطین بلکہ دنیا کے متعدد ممالک کے آرٹسٹ تربوز کے آرٹ میں فلسطینی پرچم بناتے دکھائی دیتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں تربوز کو مزاحمت کے طور پر استعمال کرنے کے عمل میں اس وقت تیزی آئی جب 20 دن قبل اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر حملے کرنا شروع کیے گئے۔

چند دن قبل فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں متعدد ایمبولینسز اور ٹیکسیز پر تربوز کی بڑی بڑی تصاویر دیکھی گئیں اور ان تصاویر کے ساتھ لکھا گیا کہ ’یہ فلسطینی پرچم نہیں ہے‘۔

یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ دنیا بھر میں فلسطینی رومال، زیتون اور دیگر چیزوں کو مزاحمت اور فلسطین کی شناخت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button