پاکستان

تنازعے کا سبب بننے والا چیف جسٹس کا فیصلہ ہے کیا؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے چھ فروری کو ملزم کی ضمانت اور فردِ جرم سے بعض الزامات حذف کروانے کی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہوئی جو لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد 16 اور 27 نومبر 2023 کے فیصلوں کے خلاف دائر کی گئی تھی۔

ملزم پر چھ دسمبر 2022 کو ضلع چنیوٹ میں درج ایف آئی آر کے مطابق صوبہ پنجاب میں قرآن کی طباعت کے قانون 2011، تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 سی اور دفعہ 295 بی کے تحت تین الزامات لگائے گئے تھے۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ملزم ممنوعہ کتاب ’تفسیرِ صغیر‘ تقسیم کر رہا تھا جبکہ ضمانت کی درخواست میں ملزم کے وکیل کا مؤقف تھا کہ ایف آئی آر کے مطابق اس جرم کا ارتکاب 2019 میں کیا گیا جبکہ کسی بھی ممنوعہ کتاب کی تقسیم یا اشاعت کو پنجاب قرآن شریف (ترمیم) قانون کے تحت سنہ 2021 میں جرم قرار دیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں کہا تھا کہ چونکہ سنہ 2019 میں ممنوعہ کتاب کی تقسیم جرم نہیں تھی اس لیے درخواست گزار پر یہ فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔

فیصلے کے مطابق ’آئین نے قرار دیا ہے کہ کسی شخص پر ایسے کام کے لیے فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی جو اس وقت جرم نہیں تھا، جب اس کا ارتکاب کیا گیا۔‘

اس حوالے سے فیصلے میں آئین کی دفعہ 12 (1) کا حوالہ دیا گیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں اگر ملزم کو کسی جرم پر سزا ہو سکتی ہے وہ ’تفسیر صغیر‘ نامی کتاب کی اشاعت اور اس کی تقسیم کا جرم ہے جس کی سزا چھ ماہ قید ہے اور ملزم پہلے ہی ایک سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزار چکا ہے۔

ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے ملزم کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اس نکتے کو نظر انداز کیا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ دین کے معاملے میں پاکستانی آئین میں اس کو بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور بیان کرنے کا حق ہے۔

سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے فیصلے میں لکھا کہ ’ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مذہب کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لیے جذبات حقائق کی جگہ لے لیتے ہیں جیسا کہ اس مقدمے میں بھی ہوا اور نجی شکایت کنندگان ریاست کی جگہ آ جاتے ہیں اگرچہ ان جرائم کی نوعیت ایسی ہے کہ یہ کسی فرد یا جائیداد کے خلاف نہیں۔‘

ملزم کی جانب سے مقدمے سے تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 298 سی اور 295 بی کے علاوہ پنجاب طباعت و ضبط قانون کی دفعات سات اور نو کو مقدمے سے حذف کرنے کی درخواست پر عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ’وکیل کا کہنا تھا کہ نہ تو ایف آئی آر میں اور نہ ہی پولیس کی تفتیش میں جمع کی گئی پولیس رپورٹ میں ملزم پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے کسی ایسے فعل کا ارتکاب کیا، جس سے مذکورہ جرائم تشکیل پاتے ہوں۔۔۔ چالان بھی اس بارے میں خاموش ہے۔۔۔ اس بنا پر دفعات 295 بی اور 298 سی ایف آئی آر سے نکال دی جاتی ہیں۔‘

خیال رہے کہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 سی احمدی برادری کے خود کو مسلمان قرار دینے جبکہ 295 بی قرآن کی بے حرمتی سے متعلق ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button