بھارتی ریاست کرناٹکا کے شہر بنگلورو کے ایک لاج میں اسکارف یا حجاب لینے والی طالبات کے کلاس میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق دسمبر کی صبح جب 18سالہ الماس اور ان کی دو سہیلیاں کلاس روم میں داخل ہوئیں تو ان کی ٹیچر نے فوراً غصے کا اظہار کرتے ہوئے انہیں کلاس سے جانے کا حکم دیا۔
الماس نے بتایا کہ ٹیچر نے کہا کہ تم کلاس روم میں حجاب کے ساتھ داخل نہیں ہو سکتیں اور ہمیں اسے اتارنے کے لیے کہا۔
اس کے بعد سے بھارتی ریاست کرناٹکا کے ضلع اڈوپی میں سرکاری سرپرستی میں چلنے والے اس سرکاری کالج میں یہ 6 مسلمان لڑکیاں کلاس سے باہر بیٹھنے پر مجبور ہیں کیونکہ اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حجاب یونیفارم کا حصہ نہیں اور یہ طالبات قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔
اس کے برعکس لڑکیوں کا مؤقف ہے کہ حجاب ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور قانون انہیں اس پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے تاہم اس کے باوجود کالج انتظامیہ لڑکیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے مختلف طریقے آزما رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 31 سمبر سے ان لڑکیوں کو مستقل غیرحاضر دکھایا جا رہا ہے حالانکہ وہ روزانہ کالج جاتی ہیں۔
ان چھ لڑکیوں کے گروپ کی ایک طالبہ زینب کے مطابق ہمارے احتجاج پر انتظامیہ کو مزید غصہ دلا دیا اور انہوں نے ہم سے کہا کہ ہم ایک خط تحریر کر کے یہ تسلیم کریں کہ ہم غیرحاضر اور اس دوران مستقل گھر پر تھے۔
تاہم زینب نے کہا کہ ہم نے پرنسپل ان کی بات سے انکار کی کوشش کی جس پر ٹیچرز نے ہمیں دھمکی دی کہ وہ ہمارا کیریئر تباہ کردیں گے۔
Standoff continues at #Udupi girls college over the #HijabisOurRight issue. 4 Students still not being allowed to enter class.Principal Rudre Gowda has called for parents meet next week. Says rules need to be followed. No exception.@CampusFrontInd has supported these students. pic.twitter.com/VnxgMjBw1h
— Imran Khan (@KeypadGuerilla) January 15, 2022
جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حجاب نہ اتارنے کے عزم پر قائم ان لڑکیوں کو مستقل انتظامیہ اور ٹیچرز کے ہتک آمیز رویے کا سامنا ہے۔
ایک طالبہ الماس نے کہا کہ پورا دن کلاس سے باہر رہنے میں کوئی خوشی محسوس نہیں ہوتی، ہماری ساتھی طالبات اور ٹیچرز جملے کستے رہتے ہیں، وہ ہم سے کہتے ہیں آخر حجاب اتارنے میں کیا مسئلہ ہے اور تم لوگ قانون پر عمل کیوں نہیں کرتے۔
ان طالبات کے لیے اصل لمحہ فکریہ کلاس میں حاضری ہے کیونکہ سالانہ امتحان میں بیٹھنے کے لیے حاضری بہت اہمیت کی حامل ہے۔
دوسری جانب اسکول پرنسل ردرے گاؤڈا نے کہا کہ ہم لڑکیوں کو کلاس میں حجاب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ یہ ہمارے یونیفارم کا حصہ نہیں اور ہم وزارت تعلیم کی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں۔
حجاب پر پابندی کے سبب بھارت میں بہت غم و غصہ پایا جاتا ہے اور طالبات اور انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے اداروں نے کالج انتظامیہ سے مسلم اقلیتی برادری سے متعصبانہ رویہ رکھنے کا الزام عائد کیا ہے۔
نئی دہلی کی انسانی حقوق کی تنظیم کی سیکریٹری آفرین فاطمہ نے اس رویے کو اسلاموفوبیا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم ان لڑکیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، ہم نے کالج انتظامیہ کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے اور ان لڑکیوں کو اسکول میں کلاس میں بیٹھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
وکلا کی مقامی تنظیم نے ریاست کی حکومت کو خط لکھ کر معاملے کی تحقیقات اور لڑکیوں کو انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔
2014 میں بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت آنے کے بعد سے بھارت بالخصوص کرناٹکا میں انتہا پسند جماعتوں کی جانب سے اقلیتوں خصوصاً مسلمان اور عیسائیوں کے خلاف سرگرمیوں اور پرتشدد واقعات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا ہے۔