وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 54 ارب روپے کے اسکینڈل کے سلسلے میں ہیسکول پیٹرولیم لیمٹڈ (ایچ پی ایل) کے بانی ممتاز حسن کو گرفتار کرلیا۔
ایف آئی اے کے سندھ کے ڈائریکٹر عامر فاروقی کا کہنا ہے کہ کیس میں نامزد نیشنل بینک اور ایچ پی ایل کے موجودہ اور سابقہ اعلیٰ عہدیداران سمیت مجموعی طور پر 30 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے اور دیگر ملزمان کی گرفتاری کی کوششیں جاری ہیں۔
ایف آئی اے سندھ کے سربراہ نے اس فریب کو ‘ملک کی سب سے بڑی مالیاتی دھوکے بازی’ قرار دیا ہے جو ایچ پی سی اور این بی پی کے اعلیٰ عہدیداران سمیت دیگر کمرشل بینکوں کی ملی بھگت سے کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ دیگر کمرشل بینکوں کے حوالے سے علیحدہ تحقیقات کی جائے گی۔
دستاویزات کے مطابق’ سال 2015 سے 2020 کے دوران بینکاری کے قوانین اور طور طریقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے این بی پی نے بینک قرضوں کی صورت میں ایچ پی ایل کو فنڈڈ اور غیر فنڈڈ مالیاتی سہولیات فراہم کی جو کہ این بی پی اور قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہوئے ایچ پی ایل فائدہ پہنچانے کے مجرمانہ عمل کے مترادف ہے۔
عامر فاروقی نے کہا کہ مجموعی طور پر 54 ارب روپے کی ادائیگیاں نہیں کی گئی جس میں 18 ارب روپے این بی پی سے لیا گیا قرض شامل ہے۔
ایف آئی اے کی تحقیقات کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘کمزور سیکیورٹی’ کے برعکس این بی پی کے صدور اور کریڈٹ گروپ کے عہدیداران نے ہسکول کی کریڈٹ لائن کو 2 ارب سے 18 ارب روپے تک بڑھایا۔
انہوں نے کہا کہ ‘این بی پی کے کریڈٹ کے سربراہ ریما اطہر اور ارتضیٰ کاظمی اس فریب کے کلیدی کردار ہیں۔
ریما اطہر ساتھی ملزم سلیم بٹ کی کمپنی کلور پرائیویٹ لمیٹڈ میں ڈائریکٹر تھیں اور انہوں نے اس ہی کمپنی کی ماتحت کمپنی فوسلز انرجی کے بورڈ میں بھی بطور ڈائریکٹر خدمات انجام دیں۔
این بی پی نے بائیکو پیٹرولیم چلانے کے لیے ہسکول کو 95 ارب روپے کے جعلی لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) جاری کیے۔
حکام کا کہنا ہے کہ بائیکو (جس کا نام اب سنرجیکو کردیا گیا ہے) کے خلاف علیحدہ مجرمانہ تحقیقات کی جائے گی۔
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر نے کہا کہ ‘ایل سی کی اس مقدار کے لیے کوئی ایندھن نہیں تھا اور یہ ایل سی صرف ہسکول کی لیکویڈیٹی بڑھانے کے لیے کھولی گئی تھی’۔
این بی پی کے علاوہ دیگر بینکوں کی جانب سے بھی ہسکول کے لیے 54 ارب روپے بغیر مصنوعات کے ایل سیز کھولی گئیں۔
عامر فاروقی نے کہا کہ ‘ہسکول کے علاوہ ایک اور کمپنی وائٹول (ایچ پی ایل کو بڑے پیمانے پر پی او ایل مصنوعات فراہم کرنے والی کمپنی) نے اوور انوائس کے ذریعے پاکستان کے باہر غیر قانونی طور پر 4 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کی ترسیل کی۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ‘ہسکول نے جعلی عہدیداروں کے ذریعے تقریباً ایک ارب 17 کروڑ روپے کا غبن کیا’۔
منی لونڈرنگ کے علاوہ ایف آئی اے ہسکول کی جانب سے ممکنہ طور پر تقریبا 5 ارب روپے ٹیکس چوری کی تحقیقات بھی کر رہا ہے۔
ایف آئی اے کی دستاویزات کے مطابق حسن ممتاز نے سال 2001 میں ایل پی ایل کو بطور پرائیویٹ کمپنی رجسٹرڈ کروایا، جو مقامی اور برآمد شدہ پیٹرولیم مصنوعات، کمیکل اور ایل پی جی کے ذخیرے اور مارکیٹنگ کا کام کرتی تھی۔
سال 2007 میں کمپنی کو پبلک یوٹیلائز میں منتقل کردیا گیا جبکہ 2014 میں اسے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
ایچ پی ایل نے پہلا قرض سال 2009 میں سمٹ بینک سے لیا لیکن سال 2014 میں این بی پی منظر عام پر آیا جب اس نے ایچ پی ایل کو 2 ارب روپے دیے۔
یاد رہے ایچ پی ایل کی درخواست ملزمہ ریما اطہر نے نمٹائی تھی جو این بی پی کو خیرآباد کہہ کر بطور سینئر نائب صدر پاک ایران سرمایہ کاری کمپنی ( پی آئی آئی سی) جاچکی ہیں۔