تازہ تریندنیا

برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم کے لیے 8 امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع

کنزرویٹو پارٹی کے اراکین اسمبلی بورس جانسن کی جگہ پارٹی کی قیادت اور ملک کے وزیراعظم کے عہدے کے لیے میدان میں موجود 8 امیدواروں سے انتخاب کریں گے۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر اعظم کے انتخابات کے لیے 11 ابتدائی امیدواروں میں سے 3 ایسے ہیں جو اپنے ساتھیوں کی خاطر خواہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد میدان سے باہر ہوگئے ہیں مگر مقابلہ بدستور کانٹے دار ہے۔

رشی سوناک کے گزشتہ ہفتے وزیر خزانہ کے عہدے سے استعفیٰ نے بورس جانسن کے اقتدار کے خاتمے کی راہ ہموار کی تھی اور وہ اس وقت بک میکرز کے پسندیدہ ہیں اور قانون سازوں میں سے انہیں سب سے زیادہ عوامی حمایت حاصل ہے۔

ان کے جانشین نادہم زہاوی اور وزیر خارجہ لز ٹرس بھی دیگر اہم امیدواروں میں شامل ہیں۔

غیر مقبول شخصیات جیسے سابق وزیر مساوات کیمی بیڈینوک اور جونیئر وزیر تجارت پینی مورڈانٹ نے دیگر سینئر قانون سازوں کی حمایت حاصل کی ہے اور پارٹی کے اراکین میں مقبول ہیں جو بالآخر اس منصب کے فاتح کا فیصلہ کریں گے۔

باقی امیدواروں میں سے ہر ایک کو پارٹی کے 358 ارکان پارلیمنٹ (ایم پیز) میں سے 30 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے تاکہ ووٹنگ کے اگلے مرحلے میں داخل ہو سکیں، جبکہ سب سے کم حمایت والے امیدوار کو قطع نظر اس مقابلے سے باہر ہونا پڑے گا۔

وزیر اعظم کے عہدے کے لیے ووٹنگ مقامی وقت کے مطابق 12:30 بجے اور 14:30 بجے کے درمیان ہوگی، جس کے بعد نتیجے کا اعلان کیا جائے گا۔

اس مشکل وقت میں جو امیدوار کامیاب ہوگا، ان کو بورس جانسن کے متعدد اسکینڈلز کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال پر عوامی اعتماد بحال کرنا پڑے گا، جس میں کورونا وائرس میں لاک ڈاؤن قوانین کو توڑنے سے لے کر حکومت میں جنسی بدسلوکی کے الزامات کے حامل رکن کو کابینہ کا حصہ بنانا شامل ہے۔

برطانیہ کی معیشت کو مہنگائی، بلند قرض اور کم شرح نمو کا سامنا ہے جس کی وجہ سے لوگ دہائیوں میں اپنے مالی معاملات پر سب سے زیادہ دباؤ کا شکار ہیں۔

برطانیہ میں یہ صورت حال یوکرین میں جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے توانائی کے بحران کے پس منظر میں ہوئی ہے جس کی وجہ سے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

جوں جوں مقابلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، چند امیدوار ٹیکسوں میں کٹوتی کے وعدے کر رہے ہیں جبکہ ان کے حامیوں میں سے متعدد افراد نے اپنے حریفوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

رشی سوناک نے منگل کو کہا تھا کہ زیادہ اخراجات اور کم ٹیکس کی پیش کش کرنا قابل اعتبار نہیں ہے اور وہ منصفانہ بنیادوں پر پیش کش کر رہے ہیں۔

وزیر ثقافت نادین ڈوریز، جو بورس جانسن کے انتہائی وفادار تھے اور اب ٹرس کی حمایت کر رہے ہیں، اس دوران رشی سوناک کی ٹیم پر ‘اسٹاپ لِز’ کی حکمت عملی کے حصے کے طور پر ‘ڈرٹی ٹرکس، اسٹیچ اپ، ڈارک آرٹس’ جیسے الزامات عائد کر رہے ہیں۔

بریگزٹ کے موقع پر وزیر جیکب ریس موگ نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ میرا ماننا ہے کہ بورس جانسن کے ساتھ رشی سوناک کے رویے اور ان کی بے وفائی کا مطلب ہے کہ میں ممکنہ طور پر ان کی حمایت نہیں کر سکتا۔

بورس جانسن نے دسمبر 2019 میں بڑی اکثریت حاصل کی تھی تاہم گزشتہ ہفتے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ وزرا کے استعفوں اور کنزرویٹو پارٹی کے بہت سے قانون سازوں کی جانب سے ہونے والی کھلی بغاوت کے بعد مستعفی ہو جائیں گے۔

بورس جانسن کے آنے والے جانشینوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ اس کے برعکس کس طرح دیانت داری اور اعتماد کی پیش کش کریں گے لیکن انہیں اپنے ہی سوالات کا سامنا ہے جیسا کہ انہوں نے بورس جانسن کی اتنی دیر تک حمایت کیوں کی۔

رشی سوناک، جنہوں نے سب سے پہلے استعفیٰ دیا تھا، بورس جانسن کی طرح ان پر بھی لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔

سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ امیدواروں نے ٹیکسوں میں کٹوتیوں اور اضافی دفاعی اخراجات کی بات کرکے صرف حکمران جماعت کے دائیں بازو کی حمایت حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے جبکہ اس کے اخراجات کیسے ہوں گے اس حوالے سے بہت کم ثبوت پیش کر رہے ہیں۔

پولز سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جب کنزرویٹو آپس میں بحث کر رہے ہیں تو وہ مرکزی اپوزیشن لیبر پارٹی سے نمایاں طور پر پیچھے ہو رہے ہیں حالانکہ چند سال تک الیکشن کا کوئی شیڈول نہیں ہے۔

خیال رہے کہ بدھ کو کامیابی حاصل کرنے والوں کو جمعرات کو کنزرویٹو اراکین اسمبلی کے دوسرے ووٹ کا سامنا کرنا پڑے گا اور 21 جولائی تک یہ تعداد حتمی نتائج تک پہنچ جائے گی اور اس کے بعد اراکین نئے لیڈر کا انتخاب کریں گے جس کا اعلان 5 ستمبر کو کیا جائے گا۔

حکومت بھی کہہ چکیہے کہ وہ پیر کو اعتماد کا ووٹ لے گی جس کے جیتنے کا بہت زیادہ امکانات ہیں۔

واضح رہے کہ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے مختلف اسکینڈلز کے باعث ملک میں سیاسی بحران شدت اختیار کرنے کے بعد گزشتہ ہفتے کنزرویٹو پارٹی کی قیادت اور وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا اور کہا تھا کہ اگلے وزیراعظم کے انتخاب تک وہ کام کرتے رہیں گے۔

بورس جانسن نے لندن میں پریس کانفرنس کے دوران اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘نئے سربراہ کے انتخاب کا عمل اب شروع ہونا چاہیے’۔

انہوں نے کہا تھا کہ اب یہ واضح ہے کنزرویٹو پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کو نیا لیڈر منتخب کرنا ہوگا تاکہ نیا وزیراعظم بھی منتخب ہو۔

بورس جانسن نے کہا تھا کہ میں نے نئی کابینہ تشکیل دے دی ہے کیونکہ میں نئے وزیراعظم کے انتخاب تک کام جاری رکھوں گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button